اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سننے والا غیبت کرنے والے کے ساتھ شریک ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں کچھ ایسے لوگ پیش کیے گئے، جو شراب پیتے تھے، لیکن ان کا ایک ساتھی روزے دار تھا، آپ نے فرمایا کہ پہلے اسے کوڑے مارو، کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ فَـلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ [1](ان کے پاس مت بیٹھو)شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ اور بیوی کی اپنے شوہر کے ساتھ رفاقت و صحبت کی صورت بہت شدید درجے کی ہے، اس لیے اس صحبت و رفاقت کا تقاضا ہے کہ کوئی عفت مآب مرد کسی زانیہ عورت سے اور کوئی عفت مآب عورت کسی زانی مرد سے شادی نہ کرے، اسی لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زانیوں سے اس وقت تک نکاح کو حرام قرار دیا ہے، جب تک وہ توبہ نہ کرلیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلزَّانِی لَا یَنکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ [2]
(بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ(یعنی
|