Maktaba Wahhabi

298 - 393
معاش نہ ہو تو انھیں مسلمانوں کے بیت المال سے اس قدر دے دو، جس سے ان کی گزر بسر ہوجائے کیونکہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسے بوڑھے ذمی کے پاس سے ہوا، جو لوگوں کے دروازوں پر جاکر مانگ رہا تھا، تو آپ نے فرمایا:ہم نے تجھ سے انصاف نہیں کیا کہ تیری جوانی میں تجھ سے جذیہ وصول کیا اور پھر بڑھاپے میں تجھے ضائع کردیا، پھر آپ نے بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ [1] اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب لوگوں کی ضرورت کو پورا کرے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ ہم یہاں ایک اور مثال ذکر کرتے ہیں۔ امام ابویوسف l نے اس معاہدے کی نص روایت کی ہے، جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس نص میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کیا گیا ہے کہ ’’ میں ان سے یہ عہد کرتا ہوں کہ جو بوڑھا شخص کام کرنے سے کمزور ہوجائے یا کسی آفت میں مبتلا ہوجائے، یا دولت مند سے فقیر ہوجائے اور اس کے دین والوں نے اس پر صدقہ کرنا شروع کردیا ہو، تو اس سے جزیہ ساقط کردیا جائے گا اور اس کی اور اس کے اہل و عیال کی مسلمانوں کے بیت المال سے کفالت کی جائے گی۔ ‘‘[2] اسلامی حکومت فقراء و مساکین کی ضرورتوں کو صرف اموال زکوٰۃ ہی سے پورا نہیں کرتی بلکہ ان اموال سے بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے، جو اسے دیگر ذرائع مثلاً جنگ یا جنگ کے بغیر حاصل ہونے والی غنیمتوں اور ٹیکسوں وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ
Flag Counter