Maktaba Wahhabi

300 - 393
اس سے بھی بڑھ کر بعض فقہاء کی یہ رائے ہے کہ صدقات وغیرہ کے علاوہ دیگر اموال میں بھی ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کو مقدم قرار دیا جائے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ مستحقین میں حاجت مند بھی ہیں، البتہ اس مسئلہ میں فقہاء میں اختلاف ہے:کیا انھیں غیر صدقات مثلاً فئ وغیرہ سے حاصل ہونے والے مال میں دوسروں سے مقدم قرار دیا جائے گا، امام احمد وغیرہ کے مذہب میں اس بارے میں دو قول ہیں، بعض نے کہا ہے کہ انھیں مقدم قرار دیا جائے گا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ مال اسلام کی وجہ سے ملا ہے، لہٰذا اس میں سب شریک ہوں گے، جیسا کہ میراث میں سب وارث شریک ہوتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ انھیں مقدم قرار دیا جائے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاجت مندوں کو مقدم قرار دیا کرتے تھے، جیسا کہ آپ نے بنی نضیر سے حاصل ہونے والے مال میں انھیں مقدم قرار دیا تھا۔ [1] اس طرح اسلامی حکومت اپنے تمام ذرائع سے حاصل ہونے والے مال سے فقراء و مساکین کی کفالت کرتی ہے اور ان پر خرچ کرنے کو اوّلیت دیتی ہے … اور پھر اسلام فقیر کو صرف اس قدر دینے کا قائل نہیں، جو اس کی ایک دن کی خوراک کے لیے کافی ہو بلکہ ضرورت و حاجت سے بڑھ کر وہ اس بات کا قائل ہے کہ بقدر کفایت دینا چاہتے یعنی اس قدر دینا چاہیے جس سے فقیر دولت مند بن جائے۔
Flag Counter