یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ اس نظریہ کو قبول کرنے کے بعد ان پر ہن برسنا شروع ہوجائے گا حالانکہ اس نظریہ میں جو مکر و فریب ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ہمیں تو ہمیشہ شرح پیدائش میں کمی کرنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں، جب کہ اپنے لوگوں کو وہ ہمیشہ شرح پیدائش میں اضافہ کی رغبت دیتے ہیں۔ وہ بچے پیدا کرنے والوں کی الاؤنسز کے پیش کرنے اور ٹیکسوں میں کمی کرنے کے ذریعہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سرجارج میومین، سربراہ اعلیٰ برائے طبی امور، وزارتِ صحت برطانیہ نے لکھا ہے کہ ’’ اگر ہم اس خطرے … قومی شرح پیدائش میں کمی کے خطرے … کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس کے تدارک کے لیے کام نہیں کریں گے، تو برطانیہ قوتوں کے شمار میں چوتھے درجے تک پہنچ جائے گا۔ ‘‘[1] سویڈن کے ایک سابق وزیر ٹریجر(Tryggar)کا کہنا ہے کہ ’’ اگر سویڈن قوم کا خودکشی کا ارادہ نہیں ہے تو اسے اپنے وطن میں شرح پیدائش میں کمی کے مقابلہ کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ ‘‘ [2]
حال ہی میں(Population Decline in Europe)(یورپ کے باشندوں کی تعداد میں کمی)کے زیر عنوان طبع ہونے والی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ تمام یورپی ممالک اپنے ہاں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کی خاطر وہ حسب ذیل چار وسائل استعمال کر رہے ہیں:
۱۔ ماں کے لیے الاؤنس
۲۔ بچے پیدا کرنے کے بعد ٹیکسوں میں کمی
۳۔ بچوں کے لیے وظائف
|