جس میں ہندوستان کی قبیح رسومات کی بیخ کنی کی اور 1847 میں حکومت کی جانب سے ان رسومات کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی کاوشوں کا تذکرہ بھی کیا اور بالآخر معترف ہوئے کہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں ۔ معالجات شافیہ سے اقتباس ملاحظہ ہو : ’’ متعدد علاقوں میں حاکموں نے کوشش کی کہ لڑکیوں کے قتل کی رسم کو ختم کیا جائے اور یہ حکم بھی دیا کہ جو کوئی لڑکیوں کو قتل کرے گا وہ قید ہوگا اور مال واسباب اس کا بحق ِ حکومت ضبط ہوگا ۔ ‘‘ پھر حکمرانوں کے چند اچھے اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں ’’ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ احکام کارگر ہوسکیں گے ؟ ہر عدالت کا دستور یہ ہے کہ استغاثہ اور شہادت کے بغیر سزا نہیں دیتی ، لہٰذا لوگ [1]اب خوفِ حاکم سے بہت احتیاط کرتے ہیں ، مبادا بیٹی کے قتل کی اطلاع حاکم تک پہنچے تو خرابی لازم ہے ، اس واسطے اب اس قوم میں لڑکیوں کی ولادت بہت خفیہ مقام میں ہوتی ہے جہاں کوئی مدعی یا گواہ نہیں مل سکتا۔ یہ صورت حال جاری رہی تو یہ لوگ ہمیشہ اپنی لڑکیوں کو قتل کرتے رہیں گے اور کسی عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوسکے گا۔ بعض حاکموں نے علاقہ داروں کو حکم دیا ہے کہ تم لوگ خبر گیری کرو ۔ ان لوگوں نے ہر جگہ چوکیدار مقرر کیے ہیں ، لیکن یہ سب امور بیرونی ہیں ۔ حاکموں نے یہ حکم نہیں دیا کہ گھروں کے اندرونی اور خفیہ امور کی خبرداری کرو، لہٰذا بیرونی تدبیر کیا کام آوے گی ؟ ۔ اب گورنمنٹ نے گزٹ آگرہ ، مؤرخہ4مئی 1847ء عیسوی جاری کیا ہے جو دیوان جے پور کے خط پر مشتمل ہے اور عبارت اس کی یہ ہے : ’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس کام میں ایک قباحت یہ ہے کہ فرقہ بھاٹ اور چارن کے بہت سے شخص تنگ معاش ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر ان کی لڑکیوں کی شادی کا اہتمام ان کے مرتبے کے مطابق نہ ہوگا تو عزت میں بٹہ لگے گا ، لہٰذا وہ ہر طرح کا خطرہ مول لیتے ہیں ۔ جب تک انسداد اس کا نہ ہوگا لڑکیوں کی ہلاکت ترک ہونے کی صورت ممکن نہیں ‘‘۔آخر میں مصنف نے حکومت کی طرف سے اس رسم کے خاتمے کیلئے جو آرڈی ننس جاری کیا اس کا تذکرہ کیا |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |