Maktaba Wahhabi

137 - 268
(۲) وہ رعایا پر ظلم کرتا ہو۔ اپنے حقوق تو جبراً وصول کرے لیکن رعایا کے حقوق پر توجہ نہ دے۔ (۳) ذاتی مفادات مثلاً ہوس ملک گیری کی بنا پر کوئی طبقہ سربراہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔ یا کوئی اطاعت گزار قوم اطاعت گزاری یا جزیہ کی ادائیگی سے انکار کردے۔ ان تمام صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی اسلام بغاوت کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اگر امام کا رعایا پر ظلم کرنا جرم ہے ۔ تو اس کے خلاف بغاوت کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا اس سے بڑا جرم ہے البتہ اسلام سے پھرنے والوں کے خلاف جہاد کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «مَنْ اَتَاکُمْ وَاَمْرُکُمْ جَمِیْعٌ عَلیٰ رَجُلٍ وَاحِدٍ یُرِیْدُ اَنْ یَّشُقَ عَصَا کُمْ اَوْ یُفَرِّقُ جَمَا عَتَکُمْ فَاقْتُلُوْهُ»[1] (اگر تمہارے معاملات کسی ایک شخص پر اکٹھے ہوں (یعنی تم سب کا کسی ایک شخص کی امارت پر اتفاق ہو) پھر کوئی شخص تمہاری قوت یا تمہاری جماعت میںتفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کردو۔) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ: «اِذَا بُوْ یِعَ الْخَلِیْفَتَیْنِ فَاقْتُلُوْا الْاٰخِرُ مِنْهُمَا»[2] (جب دو خلیفوں کی بیعت ہونے لگے تو بعد والے کو قتل کردو۔) اور ظاہر ہے کہ باغی عنصر بھی اپنے الگ سردار کے ماتحت ہوکر بغاوت کرتا ہے۔ خلافت راشدہ میں بغاوت کے خلاف جہاد کی مثال حضرت علی ص کا خوارج کے خلاف جنگ کرکے اس فتنہ کو دبانا ہے۔ دورِ نبوی میں اکثر معاہد قبیلے اور بالخصوص یہود عہد شکنی کرکے بغاوت کرتے رہے جن کی بروقت سرکوبی کی جاتی رہی۔ (۱۰) رہزنی اور ڈکیتی: رہزنی اور ڈکیتی کے انفرادی مقدمات توعدالتوں میں پیش کیے جائیں گے۔ البتہ اگر ایسی غنڈہ گردی شدید صورت اختیار کرجائے تو فوج طلب کی جاسکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ِاِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ﴾ (۵:۳۳) (جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے
Flag Counter