لیکن میری بیوی حج کو جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوٹ جا اور اپنی بیوی کے ساتھ (پہلے) حج کر‘‘۔) (بخاری‘ کتاب الجہاد والسیر-مسلم کتاب الحج-باب سفر المرأۃ مع المحرم الی الحج وغیرہ) منافقین کا نام بھی چونکہ مسلمانوں کے رجسٹر میں درج تھا۔ اس لئے وہ اکثر حیلے بہانے کر کے جہاد میں شامل نہ ہونے کی اجازت لے لیتے تھے اور یہی ان کے نفاق کی علامت تھی۔ غزو ۂ تبوک میں تین سچے مسلمان کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور اس کے دو ساتھی محض تساہل کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکے۔ تو ان پر سخت گرفت ہوئی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ یہ واقعہ قرآن[1] و احادیث میں تفصیل سے مذکور ہے۔ مسلمان عموماً اسلحہ جنگ تو حسبِ توفیق خود مہیا کر لیتے لیکن سواریوں کا معاملہ ذرا مشکل تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ لہٰذا بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر سواری طلب کرتے۔ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سرکاری بیت المال سے سواری مہیا نہ کر سکتے تھے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا قلق ہوتا۔ اور مسلمان بھی بیچارے آبدیدہ ہو کر چلے جاتے۔ غزو ۂ تبوک جو جیش العسرہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ کے وقت مسلمانوں پر خاصی تنگ دستی کا وقت تھا۔ چند مسلمان آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات اس قدر شاق گزری کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں سواری مہیا نہ کروں گا۔ وہ مایوس اور آبدیدہ ہو کر واپس چلے گئے۔ اتنے میں کچھ اونٹ بیت المال میں آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو واپس بلا کر پانچ عمدہ قسم کے اونٹ دیدیئے۔ ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری مہیا نہ کرنے کی قسم اٹھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب میں قسم کھا لیتا ہوں تو بہتر بات کے لیے اسے توڑ کر کفارہ دے دیتا ہوں‘‘۔ (بخاری‘ کتاب المغازی‘ باب قدوم الاشعریین) جنگی مصارف پہلے سے تو خمس کے مال سے پورے کیے جاتے لیکن اس سے کام نہ چلتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چندہ کی اپیل فرمایا کرتے۔ اسی غزو ۂ تبوک کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرپور مالی تعاون کی اپیل فرمائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مقابلہ مسابقت کا |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |