یہاں تک تو میدانِ جنگ میں عورتوں کی امدادی کارروائیوں کا ذکر تھا۔ اب ہم دور نبوی کا ایک ایسا واقعہ پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر لڑائی میدان جنگ کے بجائے محفوظ شہری آبادیوں میں داخل ہو جائے تو دفاع کے طور پر عورتوں کو بھی …اگر وہ کر سکیں تو … ایسا ہی کردار ادا کرنا چاہئے جیسا کہ مجاہد ادا کرتے ہیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھاکی بہادری کا کارنامہ: جنگ احزاب کے موقع پر بنو قریظہ معاہد کی حیثیت سے مدینہ میںرہ رہے تھے۔ لیکن بدعہدی کر کے ’اتحادیوں‘‘ سے مل گئے۔ ایک یہودی نے مسلمانوں کو مصروف جہاد دیکھ کر اس قلعہ پر جس میں مستورات پناہ گزین تھیں۔ حملہ کر دیا حضرت حسان بن ثابت اس قلعہ کی حفاظت پر مامور تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ’’اتر کر اس کو قتل کر دو‘‘۔ حضرت حسان کسی عارضہ کی وجہ سے لڑائی سے گھبراتے تھے۔ کہنے لگے اگر میں ایسا کر سکتا تو میدان جنگ میں ہوتا‘‘۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے خیمہ کی چوب اکھاڑی اور اس زور سے یہودی کے سر پر ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ اب حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے کہا اس کے ہتھیار اور کپڑے اتار لا ؤ ‘‘۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں‘‘۔ آخر صفیہ رضی اللہ عنھا نے خود ہی اس کا سرکاٹ کر قلعہ کے نیچے پھینک دیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ یہودیوں کو یقین ہو گیا اس قلعہ میں مسلمان فوج متعین ہے۔ لہٰذا انہیں پھر حملہ کی جرأت نہ ہوئی۔ (طبری ج ۱۔ جنگ خندق) ام عمارہ رضی اللہ عنھاکی بہادری کا کارنامہ: جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ تو افراتفری مچ گئی۔ عورتیں بھی گھروں سے میدان جنگ میں نکل آئیں جو امدادی کام سرانجام دے رہی تھیں۔ انہیں میں سے ایک حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنھا تھیں جو زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ آپ نے مشک اتار کر پھینک دی‘ تلوار کھینچ لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں لڑنے لگیں۔ اس دن انہیں تیرہ زخم پہنچے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ جب ذرا ہوش آیا۔ تو نہ اپنے خاوند سے متعلق پوچھا اور نہ بیٹے |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |