Maktaba Wahhabi

68 - 268
اس کی کھلائی ‘ پلائی‘ لید اور پیشاب سب کچھ اس کے اعمال کے ترازو میں رکھے جائیں گے۔) اموال غنیمت میں سے آپ نے مجاہد کے لئے ایک حصہ اور گھوڑے کے لئے[1] دوحصے مقرر فرمائے۔ اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ تھیں: (۱) اس دور میں نہ تو مجاہدین یا سپاہیوں کو تنخواہ ملتی تھی اور نہ اسلحہ جنگ اور گھوڑے وغیرہ۔ اپنے علاوہ گھوڑوں کی پرورش بھی مجاہدین کی ذمہ تھی اور یہ تو ظاہر ہے کہ گھوڑے کی خوراک پر آدمی سے کئی گنا زیادہ خرچ اٹھتا ہے۔ (۲) گھوڑے کے دو حصے مقرر کرنے میں یہ حکمت بھی تھی کہ مجاہدین کو گھوڑے پالنے کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت ہو۔ جاہلیت کی رسوم میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب کوئی مرجاتا تو اس کے ہتھیار توڑ ڈالتے اور جانور مار ڈالتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو یوں ختم کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و اسباب کی قسم کی کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ اور اگر کچھ چھوڑا تو وہ یہی آلات حرب تھے۔ یعنی کچھ ہتھیار اور ایک سفید خچر۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب بغلۃ النبی) آلات حرب سے مسلمانوں کی دلدادگی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اسلحہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں تیار رکھا جائے یا بہتر طریق سے استعمال کیا جائے۔ بلکہ ان میں نئے آلات حرب کی ایجادات کا بھی شوق پیدا ہو گیا۔ چنانچہ جنگ طائف میں مسلمانوں نے منجنیق‘ دبابہ اور ضبوریہ تین نئے آلات استعمال کیے۔ منجنیق ایک قلعہ شکن آلہ تھا جو توپ کی طرح ایک مقام پر نصب کیا جاتا اور بارود کے گولوں کی بجائے پتھر برساتا تھا- ابن ہشام کی روایت کے مطابق اسلام میں سب سے پہلے منجنیق کا استعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ طائف کے وقت فرمایا: جس سے اہل عرب پہلے آشنا نہ تھے۔ دوسرا جنگی آلہ جومحاصرہ کے دوران استعمال کیا گیا وہ دبابہ تھا سپاہی اس کے اندرونی حصہ میں داخل ہو جاتے اور
Flag Counter