کہ تم قریش مکہ اور غطفان کے دس آدمی بطور یرغمال لے لو تاکہ بصورت شکست اگر وہ واپس چلے جائیں تو تمہاری تکلیف کا انہیں فکر ہو اور وہ اس کا مداوا سوچنے پر مجبور ہوں۔بنو قریظہ کے ذہن میں یہ بات آگئی۔ پھر یہی نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ قریش کے سپہ سالار ابو سفیان کے پاس گئے اور کہنے لگے۔’’دیکھو! میرے تمہارے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔میں تمہیں تمہارے ہی فائدے کی ایک بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بنو قریظہ اپنے کیے پر پریشان ہیں وہ تو پہلے ہی معاہدہ توڑنا نہیں چاہتے تھے۔حیی بن اخطب نے انہیں مجبور کر دیا تھا۔وہ بھی اس شرط پر کہ اگر قریش کا م ناتمام چھوڑ کر چلے گئے تو میں تمہارے پاس آرہوں گا۔اب ظاہر ہے کہ شکست کی صورت میں نہ تو بنو نضیر مدینہ واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی تم ایسا کر سکتے ہو۔لہٰذا بنو قریظہ اب یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے چند آدمی بطور یرغمال اپنے پاس لے لیں۔اگر تم نے ان کی یہ بات مان لی تو عین ممکن ہے کہ وہ انہیں مسلمانوں کے حوالے کر کے جنگ کا نقشہ ہی الٹ دیں۔‘‘ ابو سفیان کے ذہن میں بھی یہ بات کھب گئی۔ چنانچہ قریش اور غطفان نے بنو قریظہ کے پاس عکرمہ بن ابو جہل کی سرکردگی میں ایک مشترکہ سفارت بھیجی ۔اور کہلا بھیجا کہ کل صبح آخری حملہ کے لیے تیار ہو جا ؤ ۔تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہی پاک کر دیں۔ بنو قریظہ نے جواب دیا کہ: ’’کل ہمارا چھٹی کا دن ہے۔لہٰذا کل یہ کام نہیں ہو سکتا۔نیز ہم محمد اکے ساتھ اس وقت تک لڑنے کے لیے تیار نہیں جب تک تم ہمارے اطمینان کے لیے اپنے چند خاص آدمی بطور ضمانت ہمارے حوالے نہ کر دو۔‘‘ تدبیر اپنا کام کر چکی تھی۔جب عکرمہ یہ پیغام لے کر واپس آیا تو قریش اور غطفان کو نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات کا یقین ہوگیا۔بنو قریظہ کو کہلا بھیجا کہ : ’’اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو آجا ؤ ۔ورنہ تمہاری مرضی۔خدا کی قسم! ہم اپنا ایک آدمی بھی تمہارے سپرد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘ یہ پیغام سن کر بنو قریظہ کو بھی نعیم بن مسعود کی بات کا یقین آگیا۔لہٰذا انہوں نے آئندہ جنگ میں حصہ لینے سے صاف انکار کر دیا۔دشمن کی فوجوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔کفار کے قبائل میں بدگمانی اور بد دلی کی فضا پیدا ہوگئی۔جو کفار کی شکست کے اسباب میں سے ایک مؤثر سبب |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |