Maktaba Wahhabi

216 - 389
وضاحت کریں۔(محمد وسیم سلفی،کورٹ رادھا کشن) جواب:جب مسلمان مرد یا عورت فوت ہو جائے تو حقوق العباد میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کے جنازے کے پیچھے جائیں اور جنازے کو اٹھائیں اور جنازہ اٹھانے والے اور پیچھے جانے والے مرد ہی ہوتے ہیں۔عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے محرم اور غیر محرم کا فرق نہیں کیا۔کوئی بھی مسلمان میت کو کندھا دے سکتا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں،سلام کا جواب دینا،بیمار کی عیادت کرنا،جنازوں کے پیچھے جانا،دعوت قبول کرنا اور چھینک مارنے والے کو جواب دینا۔"(بخاری،مسلم،ابوداؤد) اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیماروں کی عیادت کرو،جنازوں کے پیچھے جاؤ،یہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔"(مسند ابی یعلی،مسند احمد،بیہقی) معلوم ہوا کہ جنازوں کے ساتھ جانے کا حکم مردوں کو ہے،عورتوں کو نہیں،لہذا مرد ہی جنازے کو کندھا دیں گے۔میت کو اٹھانے اور قبر میں اتارنے کے لیے محرم کی شرط کا کوئی ثبوت نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں باب حمل الرجال الجنازة دون النساء میں بھی یہ سمجھایا ہے کہ جنازہ اٹھانا مردوں کا کام ہے،عورتوں کا نہیں بلکہ ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر محرم آدمی عورت کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہے جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے میں موجود تھے،آپ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے،میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں،آپ نے فرمایا:"کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے آج رات اپنی بیوی سے صحبت نہیں کی،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں۔آپ نے فرمایا:تم اس کی قبر میں اترو،تو
Flag Counter