Maktaba Wahhabi

122 - 268
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اس سوال کے جواب سے پیشتر ہی اس ازلی دشمن اسلام اور جاسوس کو قتل کا حکم دے سکتے تھے۔ اور تاریخ عالم میں یہ واحد مثال ہے کہ اتنے بڑے دشمن کو کمال فراخ دلی اور عالی حوصلگی سے معاف کردیا گیا ہو۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل سے اس کا اسلام لانا زیادہ عزیز تھا۔ پھر وہ بھی کسی جبر واکراہ یا دبا ؤ سے نہیں بلکہ ضمیر کے اطمینان کے ساتھ ۔ ابو سفیان کا یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس ص سے کہا ابھی اسے اپنے خیمے میں اپنے پاس لے جائیں۔ حضور ا کے اس کردار نے ابو سفیان کے ضمیر کو جھنجوڑکے رکھ دیا۔ (۴) دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا۔ اور اسلامی لشکر کو … جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا ۔ حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے سے پوری شان وشوکت سے گزرتے جائیں۔ یہ فوجی دستے اپنے الگ الگ علم سنبھالے ابو سفیان کے سامنے سے پہروں گزرتے رہے۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان کو نہیں بلکہ تمام دیکھنے والوں کے دلوں میں اسلام کی دھاک بٹھا دی۔ مخالف فریق کے کسی فرد کو نہ یہ فرصت ملی ، نہ تاب ہی باقی رہی کہ مقابلہ کے لیے کھڑاہو۔ اس طرح یہ مرکزی شہر بلا مقابلہ ہی فتح ہوگیا[1]۔ (۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ حیثیت سے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ عثمان بن طلحہ کلید بردار سے چابی منگوائی۔ کعبہ کو اس کے اندر پڑے ۳۶۰ بتوں کی آلائش سے پاک کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چھڑی سے بتوں کو گراتے اور توڑتے جاتے اور ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھتے جاتے تھے:۔ ﴿ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀ ﴾ (۱۷:۸۱) (حق آگیا اور باطل بھاگ کھڑا ہوا۔ بیشک باطل بھاگ کھڑا ہونے والا ہے۔) (۶) فتح مکہ کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی۔ کعبہ میں کھڑے ہوکر اسلام کی حقانیت پر خطبہ ارشاد فرمایا اور اہالیان مکہ سے پوچھا ۔ ’’بتا ؤ آج تم مجھ سے کیسے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘ ۔ وہ بھیڑئیے جو آج تک پیغمبر اسلام کے خون کے پیاسے رہے اورجن کی مظالم کی داستانیں سُن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اگر ان میں کچھ بھی
Flag Counter