Maktaba Wahhabi

181 - 268
(۱) آقا اور غلام کی خوراک، لباس اور رہائش میں کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔ بدر کے قیدیوں میں ایک ابو عزیز تھے جو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک انصاری نے اپنے گھر میں قید کر رکھا تھا۔ یہ لوگ مجھے تو کھانا دیتے اور خود کھجوریں کھا کر گزارہ کرتے۔ مجھے شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دیتا مگر وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور روٹی مجھے واپس کردیتے (ابن ہشام بحوالہ سیرۃ النبی ج ۱ص ۳۳۶) اور یہ تو واضح ہے کہ ابوعزیز فدیہ کے بعد چھوڑ دئیے گئے تھے۔ (۲) غلام کی جان، مال اور آبرو قانون کی نظر وں میں آقا کے برابر ہے۔ غلام کی جان، مال اور آبرو کی قیمت ایک آزاد مسلمان کے برابر قرار دی گئی۔ اور دورِ فاروقی میں ایک ذمی کے قتل کا مسلمان قاتل سے قصاص لیا گیا۔ پھر اگر کوئی غلام مستقل طور پر کسی کی ملکیت میں ہو تو مندرجہ بالا حقوق کے علاوہ درج ذیل حقوق بھی اسے حاصل ہوتے ہیں:۔ (۳) غلام کی ذہنی آزادی کا احترام کیا جائے گا اگر وہ جوہر قابل ہے تو اس کی کما حقہ تربیت کی جائے۔ (۴) غلام کو شادی کرنے اور اپنی انفرادی معاشرتی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا۔ (۵) غلام کو اپنی آزادی خریدنے کا حق حاصل ہے۔ جسے شرعی زبان میں مکاتبت کہتے ہیں۔ اب ہم اس ضمن میں چند احادیث پیش کرتے ہیں۔ (۱) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: «سَمِعْتُ رَسُوْ لَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ لَطَمَ مَمْلُوْکًا اَوْ ضَرَبَهُ کَفَّارَتُهُ اَنْ یُعْتِقُهُ» (مسلم۔ باب صحبة الممالیك) (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ ’’جس کسی نے اپنے غلام کو طمانچہ لگایا یااسے مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس کو آزاد کردے۔ ‘‘) اور اس کو آزاد کرنے میں ثواب کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ کفارہ ہے۔ (حوالہ ایضا) (۲) اس حدیث کی تشریح میں امام نووی (شارح مسلم) لکھتے ہیں ’’سبحان اللہ لونڈی غلام رکھنا ان لوگوں کا حق تھا جو اولاد کی طرح ان کی تعلیم اور تربیت کرتے تھے۔ جو آپ
Flag Counter