Maktaba Wahhabi

102 - 430
ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی، کسی بھی حدیث کا کسی ایک بھی کتاب میں صحیح سند و متن سے آجانا کافی ہوتا ہے، جبکہ اس روایت کی سند ایسی نہیں، بلکہ محدّثینِ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم اور امام بیہقی جیسے مقتدر علمائے رجال نے اس کی سند کے ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی کو ضعیف و متروک، منکر الحدیث، لیس بشییٔ اور متفق علی ضعفہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ’’نیل الأوطار‘‘ (۲/ ۳/ ۲۱) ’’بلوغ الأماني شرح الفتح الرباني ترتیب و شرح مسند أحمد الشیباني‘‘ (۳/ ۱۱۷۱)، ’’ضعیف سنن أبي داود‘‘، ’’المرعاۃ‘‘ (۲/ ۳۰۱) اور دیگر کتبِ شروح و حدیث میں مذکور ہے۔ شارح مسلم امام نووی نے بھی اس راوی کو بالاتفاق ضعیف قرار دیا ہے، جیسا کہ ان کی شرح ’’صحیح مسلم‘‘ (۲/ ۴/ ۱۱۵) اور ’’الخلاصۃ‘‘ میں مذکور ہے۔[1] بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ والی اس حدیث کی طرف مختصراً اشارہ کیا اور اسے ضعیف کہا ہے۔ [2] یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس راوی کے بارے میں کہا ہے: ’’فِیْہِ نَظَرٌ‘‘ کہ یہ راوی محلِ نظر ہے اور ’’نصب الرایۃ‘‘ (۱/ ۳۱۴) میں امام زیلعی نے بھی یہ لکھا ہے۔ امام ابن ہمام نے التحریر میں کہا ہے: ’’جس آدمی کے بارے میں امام بخاری ’’فِیْہَ نَظَرٌ‘‘ فرما دیں تو اس آدمی (یا راوی) کی حدیث قابلِ حجت نہیں ہوتی، نہ اس کی حدیث سے شہادت لی جا سکتی ہے اور نہ وہ حدیث قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔‘‘[3]
Flag Counter