Maktaba Wahhabi

123 - 430
ہرکس و ناکس واقف ہے، ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ شریف کے لیے ۷۸۶ کا استعمال ہے ، جو خطوط اور ہر قسم کی تحریروں مثلاً کتابوں، مجلّوں اور مقالوں میں بہ شدّتِ تمام نظر آتا ہے اور یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ۷۸۶ واقعی ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ شریف کا بدل ہے۔ درحقیقت یہ ہر گز ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ شریف کا بدل یا مترادف نہیں۔ یہ کسی طرح بھی ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کا ہم مضمون و ہم معنیٰ نہیں، بلکہ محض عدد ہے، کیوں کہ ۷۸۶ کا اطلاق تو کسی چیز پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ۷۸۶ ظرفِ شراب، جڑی بوٹیاں وغیرہ وغیرہ، وہ اچھی ہوں یا بری، حرام ہوں یا حلال، یہ کسی صورت میںبھی بسم اللہ کا بدل ہر گز نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو عربی زبان میں نازل کیا ہے، تاکہ لوگ اس کو سمجھ سکیں اور ہدایت یاب ہوں۔ اگر اعداد ہی سے مقصد حاصل ہو سکتا تو یہ آسان طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟ کیا نعوذ باللہ ذاتِ باری تعالیٰ سے غلطی سرزد ہوئی ہے، جسے ہمارے یہ بعض علمادرست کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں؟ اگر اعداد کی شکل میں وحی نازل کی جاتی تو اس سے بنی نوعِ انسان کو کیا حاصل ہوتا؟ ہمیں اوّل تا آخر اعداد ہی کا لا متناہی سلسلہ دکھائی دیتا۔ ہمیں تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم قرآنِ مجید کی تلاوت کریں: ’’اور یہ قرآنِ مجید ہے جس کو ہم نے (پاروں اور رکوعوں) میں تقسیم کیا ہے، تا کہ تم وقفوں وقفوں سے اس کی تلاوت کرو۔ اور ہم نے اسے (یکے بعد دیگرے) تنزیلات میں نازل کیا ہے۔‘‘ (۱۷: ۲۰) اگر قرآنِ مجید کو اعداد میں منتقل کر دیا جائے تو سورۃ فاتحہ کو قارئین کی سہولت کے لیے اعداد میں رقم کیا جاتا ہے۔
Flag Counter