Maktaba Wahhabi

291 - 430
3- اُدھر ترمذی میں تعلیقاً اور سنن نسائی و ابن ماجہ اور علل ترمذی و مستدرک حاکم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے موصولاً و مرفوعاً مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں التحیات اس طرح سکھلایا کرتے تھے جس طرح کوئی قرآنی سورت سکھلاتے تھے اور وہ یوں تھا: بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ۔۔۔ الخ۔‘‘ اسے اگرچہ امام حاکم نے صحیح کہا ہے (جو تصحیح میں متساہل مشہور ہیں) لیکن امام بخاری، ترمذی، نسائی اور بیہقی جیسے کبار حفاظ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں راوی سے خطا ہو گئی ہے اور اس کی دلیل مسلم، ابو داود، نسائی و ابن ماجہ، ابو عوانہ، دارمی و دار قطنی، بیہقی اور مسند احمد کی حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سے تشہّد شروع کرنے کا حکم فرمایا ہے۔[1] مصنف عبدالرزاق کے الفاظ ہیں: ’’تم میں سے جب کوئی قعدہ کرے تو وہ ’’التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ۔۔۔ الخ‘‘ سے شروع کرے۔‘‘ سنن کبریٰ بیہقی، نیز بعض دیگر کتب میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ ’’التَّحِیَّاتُ‘‘ سے پہلے ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ پڑھنے پر نکیر کیا کرتے تھے۔ الغرض بسم اللہ والی روایات صحیح نہیں، جیسا کہ حفاظِ حدیث نے کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ المدونہ میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کسی حدیث میں تشہّد سے پہلے بسم اللہ نہیں پائی، حدیث سے مراد صحیح و مرفوع حدیث ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما والا اثر اس بات کے منافی نہیں ہے، کیوں کہ یہ موقوف ہے۔[2]
Flag Counter