Maktaba Wahhabi

332 - 430
ہے اور ایسی صورت میں اصولی قاعدہ یہ ہے: ’’النَّصُّ مُقَدَّمٌ عَلی الظَّاہِرِ عِنْدَ التَّعَارُضِ‘‘[1] ’’جب ظاہراور نص میں تعارض ہو جائے تو نص مقدّم ہوگی۔‘‘ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں سے تورّک کے اثبات والی نص تورّک کی نفی کرنے والے ظاہری مفہوم سے مقدّم ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افتراش والی یہ حدیث مبہم ہے اور تورّک والی حدیثِ ابو حمید رضی اللہ عنہ مفصّل ہے: ’’فَلْیُحْمَلُ الْمُبْہَمُ عَلَی الْمُفَصَّلِ‘‘[2] ’’پس مبہم کو مفصّل پر محمول کیا جائے گا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: افتراش کے بارے میں احادیث مطلق ہیں، جبکہ حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں قید ہے کہ پہلے قعدہ میں افتراش اور دوسرے یا آخری میں تورّک ہے: ’’فَوَجَبَ حَمْلَ ذَٰلِکَ الْمُجْمَلِ عَلَیْہِ‘‘[3] ’’لہٰذا اس مجمل کو اس (مفصّل) پر محمول کرنا ضروری ہو گیا۔‘‘ 3- افتراش کی افضلیت پر بخاری ، شرح السنہ و سنن نسائی، دارقطنی، ابن ابی شیبہ اور موطأ امام مالک میں مروی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: (( مِنْ سُنَّۃِ الصَّلوٰۃِ أَنْ تَنْصِبَ الْقَدَمَ الْیُمْنٰی وَاسْتِقْبالُہٗ بِأَصَابِعِہَا الْقِبْلَۃَ ، وَالْجُلُوْسُ عَلَی الْیُسْرٰی )) [4]
Flag Counter