Maktaba Wahhabi

67 - 430
امیر کی) سمع و طاعت کرو، اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔ پس تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ لازم ہے، اس پر خوب مضبوطی سے جمے رہو۔‘‘ اس بلیغ و مؤثر ترین خطبے کے آخر میں یہ بھی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) [1] ’’محدثات و بدعات سے بچ کر رہو، کیوں کہ ہر محدث امر بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ یہ حدیث اور خصوصاً اس کے آخری الفاظ، ایسے ہی اس سے پہلے ذکر کی گئی حدیث کے آخری الفاظ ہیں: (( وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) ’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ لہٰذا کسی بدعت کو بدعتِ حسنہ قرار دینا صحیح نہ ہوگا، بلکہ یہ اِن احادیث کے سراسر خلاف ہے۔ بعض سلف صالحین کے کلام میں جو بدعات کا استحسان وارد ہوا ہے، وہ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کے بقول لغوی بدعات (یا دُنیوی بدعات) کے بارے میں ہے نہ کہ شرعی (یا دینی) بدعات کے بارے میں۔ جیسا کہ انھوں نے ’’جامع العلوم و الحکم‘‘ میں وضاحت کی ہے۔[2] حضرت مجددِ الفِ ثانی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرماتے ہیں: ’’گفتہ اند کہ بدعت ہر دو نوع است، حسنہ و سیۂ ، حسنہ آں عمل نیک را
Flag Counter