Maktaba Wahhabi

260 - 579
خطابی رحمہ اللہ نے امام موصوف سے اس بات کو نقل کیا ہے۔ کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی سے ہمیں یہ بات نہیں پہنچی ہے کہ انھوں نے ان احادیث کی تاویل کی ہو، اللہ تعالیٰ کا اجلال اس بات سے مانع ہے کہ ان احادیث کی تاویل کی جائے یا اس کے لیے کوئی کہاوت بیان ہو۔ جب ان صفات علیا میں سے کئی ایک کے ساتھ قرآن عظیم نازل ہوا، جیسے ﴿یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ﴾[الفتح: ۱۰] تو ا س کے نفس تلاوت سے ہر سامع اس کے معنی مراد کو سمجھ جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾[المائدۃ: ۶۴] چونکہ یہودی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف بخل کی نسبت کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کے تلاوت کرنے ہی سے اس کا معنی و مقصود واضح ہوجاتا ہے۔ ان آیات کی تاویل اللہ تعالیٰ کے لیے تمثیل کو مستلزم ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۲۰] میں ان کا یہ قول کہ اس جگہ ’’استوی‘‘ سے مراد استیلا ہے، حالاں کہ اس سے باری تعالیٰ کی بشر کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے اور اہلِ اثبات اس بات سے اللہ تعالیٰ کے جلال کی تنزیہ کرتے ہیں کہ اسے حقیقتاً یا مجازاً اجسام کے مشابہ قرار دیں، کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ یہ نطق ان کلمات پر مشتمل ہے جو خالق و مخلوق کے درمیان متداول ہیں۔ اور اہلِ اثبات ان کلمات کو مشترک کہنے میں حرج محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ لہٰذا انھوں نے ان احادیثِ صفات میں سے کسی حدیث کی تاویل نہیں کی ہے، حالاں کہ ہمیں قطعاً معلوم ہے کہ یہ احادیث جاہلوں کے ان ظنون سے بالاتر ہیں جو گمان وہ ان احادیث کی طرف سے کرتے ہیں۔ ذرا سا غور اور تامل کرنے سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نر اور مادے سے پیدا ہونے والی مخلوقات کا اس آیت میں ذکر فرمایا: ﴿ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا یَّذْرَؤُکُمْ فِیْہِ﴾ [الشوریٰ: ۱۱] [اس نے تمھارے لیے تمھارے نفسوں سے جوڑے بنائے اور جانوروں سے بھی جوڑے۔ وہ تمھیں اس (جہاں) میں پھیلاتا ہے]
Flag Counter