Maktaba Wahhabi

285 - 579
کوئی حاجت ہو اور وہ اس پر مستقر ہو، بلکہ خود اللہ تعالیٰ حافظ عرش اور غیر عرش ہے۔ اگر وہ محتاج ہوتا تو اسے مخلوق کی مانند عالم کی ایجاد وتدبیر کی قدرت نہ ہوتی اور اگر وہ جلوس وقرار کا محتاج ہوتا تو عرش کی خلق سے پہلے وہ کہاں تھا؟ وہ تو اس سے نہایت درجہ منزہ اور عالی ہے۔ 5۔ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی اور تنزیل اور اس کی صفت عین ہے نہ غیر، بلکہ علی التحقیق ایک صفت ہے۔ وہ مصاحف میں ہے، لکھا ہوا اور زبانوں سے پڑھا جاتا ہے، دلوں میں محفوظ ہے اس میں کوئی کمی بیشی متصور نہیں ہے۔ حروف، سیاہی، کاغذ اور کتابت سب مخلوق ہیں،[1] کیونکہ یہ بندوں کے افعال ہیں اور اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے، کیوں کہ یہ کتابت، حروف، کلمات اور آیات یہ سب بندوں کی حاجت کے سبب آلاتِ قرآن ہیں۔ اللہ کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کے معنی ان سب چیزوں سے مفہوم ہیں۔ جو کوئی یہ کہے کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے، وہ اللہ عظیم کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے معبود ہے، جیسے کہ وہ پہلے تھا۔ اس کا کلام اس کی ذات سے زوال کیے بغیر مقرؤ، مکتوب اور محفوظ ہے۔ 6۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ *اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ *فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ﴾ [الواقعۃ: ۱۰، ۱۱، ۱۲] [اور جو پہل کرنے والے ہیں، وہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں۔ نعمت کے باغوں میں] بہر حال ہر سابق افضل ہے۔ ہر متقی مومن ان سے محبت کرتا ہے۔ اور ہر بدبخت منافق ان سے دشمنی اور بغض رکھتا ہے۔ 7 ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ بندے اپنے اعمال، اقرار اور معرفت کے ساتھ مخلوق ہیں۔ لہٰذا جب وہ اپنے افعال کے ساتھ مخلوق ٹھہرے تو وہ خود بھی بالاولیٰ مخلوق ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے انھیں پیدا کیا تو ان کے پاس کوئی طاقت نہ تھی، کیوں کہ وہ کمزور اور عاجز ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا خالق اور رازق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter