Maktaba Wahhabi

410 - 579
بعد جانا ہو، جب سب کو آنِ واحد میں جان لے تو پھر تغیر وحدوث کی گنجایش نہیں ہے۔ پس اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ ہم اس کے لیے متعدد تعلقات کا اثبات کریں، تاکہ تغیر و حدوث ان تعلقات کے ساتھ راجع ہو، نہ کہ صفتِ علم کی طرف، جیسا کہ بعض متکلمین نے فلاسفہ کے شبہے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے۔ ہاں اگر معلومات کی جانب تعددِ تعلقات کا اثبات کریں تو اس کی گنجایش ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک صفتِ بسیط کلام ہے اور وہ ازل سے ابد تک اسی ایک کلام کے ساتھ ناطق ہے۔ اگر امر ہے تو وہ بھی وہیں سے پیدا ہوا ہے اور اگر نہی ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے، اگر خبر ہے تو بھی وہیں سے ماخوذ ہے، اگر استفہام ہے تو وہ بھی وہیں سے، اگر تمنی یا ترجی ہے تو وہ بھی وہیں سے مستفاد ہے۔ تمام نازل شدہ کتابیں اور بھیجے ہوئے صحیفے اس کلام بسیط کا ایک ورق ہیں۔ اگر تورات ہے تو وہ بھی وہیں سے لکھی گئی ہے، انجیل ہے تو اس نے بھی وہیں سے صورتِ لفظی حاصل کی ہے، اگر زبور ہے تو وہ بھی وہیں سے مسطور ہوئی ہے اور اگر فرقان ہے تو وہ بھی وہیں سے نازل ہوا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک ہی فعل ہے اور اسی ایک فعل کے ذریعے اولین و آخرین کی مصنوعات وجود میں آ رہی ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ وَمَآ اَمْرُنَآ اِِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍم بِالْبَصَرِ﴾[القمر: ۵۰] [اور ہمارا حکم تو صرف ایک بار ہوتا ہے، جیسے آنکھ کی ایک جھپک] اس آیت کریمہ میں مذکورہ حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر زندہ کرنا یا مارنا ہے تو وہ اسی ایک فعل سے مربوط ہے۔ ایلام ہو یا انعام اسی ایک فعل سے وابستہ ہے، اسی طرح ایجاد ہو یا اعدام، وہ بھی اسی ایک فعل سے پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا حق سبحانہ و تعالیٰ کے فعل میں بھی تعددِ تعلقات ثابت نہیں ہے، بلکہ ایک ہی تعلق سے مخلوقاتِ اولین و آخرین اپنے وجود کے اوقاتِ مخصوصہ میں وجود پذیر ہو رہی ہیں اور یہ تعلق بھی حق تعالیٰ کے فعل کے مانند بے مثل ہے، کیونکہ چوں کو بے چوں کے ساتھ کوئی راہ نہیں ہے۔ بادشاہوں کی بخشش ان کے اونٹ ہی اٹھا سکتے ہیں۔
Flag Counter