Maktaba Wahhabi

496 - 579
﴿اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ﴾[الأنفال: ۳۴] [اس کے متولی نہیں ہیں مگر جو متقی ہیں] ایک جگہ فرمایا: ﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن﴾[المائدۃ: ۲۷] [بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے] غرض کہ حق تعالیٰ کی بندے کے ساتھ دوستی تقوی میں منحصر ہے نہ کہ انساب میں۔ رسالہ مکیہ میں لکھا ہے: ’’یہ نظم وترتیب وغیرہ حصر کا فائدہ دیتی ہے، ابلیس، بلعام اور برحیصا جیسے مستدرجین کو دیکھو کہ جب انھوں نے اپنے کمالِ حالات اور کرامات کے باوجود تقوی کو نظر انداز کیا اور خواہش کا اتباع کیا تو کس طرح وہ اپنے درجات سے گر گئے۔‘‘ لو کان في العلم من دون التقی شرف لکان أشرف خلق اللّٰه إبلیس [اگر تقوے کے سوا علم میں کوئی شرف ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ابلیس سب سے زیادہ باشرف ہوتا] بالجملہ سادات واہلِ علم کو آخرت میں جتنا عظیم خطرہ ہے اتنا خطرہ عوام مومنین اور کم نسب مسلمین کو نہیں ہے۔ علماے سو کی مذمت میں کئی ایک صحیح احادیث مروی ہیں، انھیں عامۂ خلق کی نسبت ترکِ عمل پر مزید عقاب ہو گا اور سادات کو حرمت نبوی کی عدمِ حفاظت کے سبب عذاب مضاعف کیا جائے گا، کیونکہ تعزیر بقدر بزرگی ہوتی ہے۔ عوام کا گناہ جہل کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور علما کا گناہ براہِ جراَت اور سادات کا گناہ براہِ غرور نسب، والعیاذ باللہ۔ نجات اسی کو ملے گی جو اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے اور کثرتِ حسنات کے باوجود خائف رہتا ہے۔ آلِ نبی میں نجاتِ آخرت کے لیے تقوی وطہارت شرط ہے اور خیریتِ خاتمہ اور حسنِ عاقبت تقوی پر موقوف ہے، جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْن﴾[الأعراف: ۱۲۸] [اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے] ٭٭٭
Flag Counter