کوئی اسے پہچانتاتھا،حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑکربیٹھ گیا (وہ اس طرح کہ )اپنے دونوں گھٹنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے ساتھ جوڑ دیئے اوراپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لئے، اور کہا: اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کی بابت خبردیجئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ کوئی معبودِ حق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ،اورگواہی دو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیںاورنمازقائم کرواورزکاۃ اداکرواور رمضان کے روزے رکھواوربیت اللہ کا حج کرو اگر طاقت ہو۔ اس نے کہا :آپ نے سچ فرمایا۔ہمیں تعجب ہوا کہ یہ شخص خود ہی سوال کررہا ہے اور خود ہی اس کے جواب کی تصدیق کررہاہے۔ پھر اس نے کہا :مجھے ایمان کی بابت خبردیجئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(ایمان یہ ہے کہ)تم اللہ تعالیٰ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پراور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ،نیز تقدیرپر بھی ایمان لاؤ،خواہ وہ اچھی ہو یابری۔ اس نے (پھر)کہا:آپ نے سچ فرمایا۔ پھر اس نے احسان کے بارے میں سوال کیا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویاتم اسے دیکھ رہے ہو،اوراگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تووہ تو تمہیں دیکھ رہاہے۔ پھراس نے کہا:مجھے قیامت کے بارے میں خبردیجئے (یعنی کب قائم ہوگی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے بارہ میں مسئول کا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے ۔ تب اس نے کہا:مجھے قیامت کی نشانیاں ہی بتادیجئے ،فرمایا: ایک نشانی تویہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کوجنم دے اوردوسری نشانی یہ ہے کہ تم ننگے پاؤں ،ننگے بدن ،انتہائی فقیروں اوربکریوں کے چرواہوںکو دیکھوگے کہ وہ بڑی بڑی بلڈنگوںمیں فخر کرنے والے ہونگے ۔ پھر وہ شخص چلاگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیرتوقف کے بعد فرمایا :اے عمر!کیاتم جانتے |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |