Maktaba Wahhabi

245 - 271
مجھ پر اور میری اولاد پرمیری پیدائش سے بھی ہزاروں سال قبل لکھ دی گئی تھی۔ یہ ہمارے شیخ کا جواب ہے ،جبکہ ہمیں اس کا ایک دوسرا جواب بنتا دکھائی دے رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ گناہ پر تقدیر کے لکھے ہو ئے کو بطورِ حجت پیش کرنا ایک مقام پر درست اور نافع ہے،اور ایک مقام پر غلط اور نقصان دہ ہے ،نافع اس وقت ہے جب بندے سے گناہ سرزد ہوجائے اور وہ اس پر توبہ کر لے اور پھر کبھی اس گناہ کی طرف جھانک کر بھی نہ دیکھے ،جیسا کہ آدم علیہ السلام نے کیا،تو اس صورت میں ا پنے گناہ کو نوشتۂ تقدیر قراردینا عینِ توحید بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی معرفت کی علامت بھی ۔ دریں صورت تقدیر کا ذکر ،ذکر کرنے والے اور سننے والے دونوں کو فائدہ دے گا؛کیونکہ تقدیر کے ذکر سے نہ تو وہ کسی امر یا نہی کو ٹال سکتا ہے نہ ہی شریعت کو باطل کرسکتا ہے،اس سے تو توحید کی اساس پر محض حق کا ذکر کرنا مقصود ہوتا ہے،نیز یہ کہ بندہ یہ اقرار کرتا ہے کہ نیکی کرنے یا برائی کے چھوڑنے کی مجھ میں کوئی طاقت نہیں(یہ تو محض اللہ کی توفیق ہی سے ممکن ہے) (یہ بات تھوڑی سی دقیق ہے) لہذا ہم آدمعلیہ السلام کے واقعہ سے کچھ توضیح کرتے ہیں: آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایاتھا: تم مجھے میرے ایک ایسے گناہ کہ جو میری پیدائش سے قبل ہی تقدیر میں لکھا جاچکا تھا کے ارتکاب پر ملامت کررہے ہو؟چنانچہ جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ،پھر وہ توبہ کرلے اور اس کا گناہ اس طرح دُھل جائے کہ گویا سرزد ہی نہیں ہواتھا، اس کے بعد کوئی شخص اسے اس گناہ کے ارتکاب پر ملامت کرے تو دریں صورت اس کا تقدیر کے لکھے ہوئے کو محض حجت بنانا درست ہوگا،اب وہ یہ کہہ سکتا ہے گناہ کا یہ معاملہ میری تقدیر میں میری پیدائش سے قبل ہی لکھا جاچکا تھا۔اب وہ تقدیر کے ذکر سے نہ تو حق کو ٹال رہا ہے، نہ ہی تقدیر میں لکھے ہوئے کو اپنے گناہ کے جواز کیلئے بطورِ دلیل پیش کررہا ہے (کیونکہ وہ تو اپنے اس گناہ سے سچی توبہ کرچکا ہے) لہذا اب تقدیر کے لکھے ہوئے کو بطورِ حجت پیش کرنے کا کوئی نقصان نہیں ہے
Flag Counter