علم دے،یہ بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوگا اور یہی نیت شیخ اوراس کے تلامذہ کو مستحضر ہونی چاہئے ۔البتہ یہاں ایک ادب کی نشاندہی ضروری ہے ، اور وہ یہ کہ جب شیخ اپنے طلبۃ العلم کو وقت دے اوران کے درمیان بیٹھے توطلبہ غیرضروری باتوں سے اپنے شیخ کا وقت ضائع نہ کریں اور بہت زیادہ سوالات سے گریزکریں،یہ اہم اورنفیس نکتہ بھی حدیث جبریل سے حاصل ہور ہا ہے ،چنانچہ انہوں نے اتنی دور سے تشریف لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرورتِ دین کے تعلق سے محض چند سوالوں پر اکتفاء کیا اورواپس تشریف لے گئے۔ لہذاطلبۃ العلم اپنے شیخ کے وقت اورآرام کا پوراپوراخیال رکھیں ۔ اگر شیخ کی نشست کیلئے اونچے چبوترے یاکرسی وغیرہ کا اہتمام ہو تویہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،چنانچہ سنن ابی داؤد میں ابوذر غفاری اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے: کان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یجلس بین ظھراني أصحابہ،فیجی ء الغریب فلا یدری أیھم ھو حتی یسأل،فطلبنا إلی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أن نجعل لہ مجلسا یعرفہ الغریب إذا أتاہ، قال :فبنینا لہ دکانا من طین،فجلس علیہ، وکنا نجلس بجنبتیہ۔ یعنی :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان(کسی امتیازکے بغیر) بیٹھا کرتے تھے حتی کہ اگر کوئی اجنبی آتا تووہ نبیعلیہ السلامکو پہچان نہ پاتا،اور اسے پوچھنا پڑتا (کہ تم میں نبیعلیہ السلامکون ہیں؟) تو ہم نے نبی علیہ السلام سے گزارش کی کہ آپ کیلئے ایک الگ (اونچی)نشست بنادیں تاکہ ایک اجنبی بھی آپ کو فوری پہچان لے ،چنانچہ ہم نے مٹی کا ایک چبوترہ بنادیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرماہوتے اورہم آپ کے اردگرد بیٹھاکرتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ معلم کیلئے اونچی نشست (کرسی وغیرہ)کا انتظام مستحسن ہے؛تاکہ وہ پہچاناجاسکے اور تمام حاضرین اسے دیکھ سکیں۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |