Maktaba Wahhabi

108 - 360
"من علق تميمة فقد أشرك" (9) جس نے تعویذ باندھا، اس نے شرک کیا ۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے سختی کے ساتھ اس عمل سے منع کیا ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ جس نے کسی کے گلے سے تعویذ کاٹ پھینکا اسے غلام آزاد کرنے کے برابرثواب ملے گا۔ ابراہیم نخعی، جو کہ ایک بزرگ تابعی تھے فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہر طرح کے تعویذ سے نفرت کرتے تھے، خواہ اس میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوں یاکچھ اور۔ جمہور علماء کرام کا قول یہی ہے کہ ہر طرح کا تعویذ حرام ہے۔ میرے نزدیک بھی یہی قول راجح ہے۔ درج ذیل اسباب کی بنا پر: 1۔ جن احادیث میں تعویذ کی حرمت کا ذکرآیا ہے ان میں عموم ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عام تعویذوں کے بارے میں حرمت کا ذکرکیا ہے۔ چاہے اس میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی ہوں یاکچھ اور۔ 2۔ اگرقرآن کی آیت پرمشتمل تعویذ کو جائز قراردیا جائے تو اس سے مستقبل میں ان تعویذوں کا دروازہ کھل جائے گا جن میں قرآن کی آیتیں نہیں ہوں گی۔ 3۔ اس طرح قرآن کی بے حرمتی کا ا مکان ہے اس لیے کہ تعویذ پہن کر انسان رفع حاجت کے لیے گندی جگہوں پر جاسکتا ہے۔ یا کبھی وہ خود حالت جنابت میں ہوسکتا ہے یا پہننے والی عورت حالت حیض میں ہوسکتی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ مرض کے وقت انسان جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا سہارا لے۔ بلکہ اسلام نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ایسے موقعوں پر ہمیں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے یا ان طریقوں سے علاج کرنا چاہیے جو معروف ہیں۔ خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مرض کی حالت میں انہیں طریقوں سے علاج کیا، جو اس زمانے میں مروج تھے یا پھرحکیموں کی طرف رجوع کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter