Maktaba Wahhabi

110 - 360
گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں۔ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے، جو ان کے زندہ جاوید ہونے کے لیے بطور مثال پیش کی جاسکے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن وسنت اورعلماء امت کے مطابق وہ بھی تمام انسانوں کی طرح فنا کا شکار ہوچکے ہیں۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خضر علیہ السلام اور ان کی زندگی سے متعلق جتنی بھی احادیث موجود ہیں وہ سب گھڑی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر خضر علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنا یا الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کاہرسال ملاقات کرنا یا خضر علیہ السلام کا جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام سے عرفہ میں ملاقات کرنا۔ یہ سب باتیں گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے خضر علیہ السلام کے بارےمیں سوال کیاگیا کہ کیا وہ زندہ ہیں؟جواب دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ جبکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ آج ر وئے زمین پر جو شخص زندہ ہے سوسال کے بعد وہ زندہ نہیں ہوگا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خضر علیہ السلام زندہ بچ رہے ہوں۔ علمائے کرام نے خضر علیہ السلام کی موت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی یہ آیت پیش کی ہے: "وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ" (الانبیاء:34) اور اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ جیتے رہیں گے؟ قرآن خود ہی گواہی دے رہاہے کہ کسی بشر کو عمر جاودانی نہیں عطا کی گئی ہے۔ اگر عقلی اعتبار سے بھی غور کیا جائے تو آخر خضر علیہ السلام کے زندہ جاوید ہونے اور پہاڑوں اور غاروں میں بسیرا کرنے میں کسی کا کیافائدہ یا بھلا ہوسکتا ہے۔ فائدہ تو جب تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتے اور انہیں اچھی اچھی باتیں بتاتے۔ حقیقت یہ
Flag Counter