Maktaba Wahhabi

156 - 360
اصول کی پابندی کوئی بہت ضروری بھی نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی فلسطینی شخص کسی خلیجی ملک میں نوکری کر رہا ہے اور اس کے اعزاواقارب اس سے دور کسی فلسطینی کیمپ میں غربت وافلاس کی زندگی گزاررہے ہیں تو ایسی صورت میں یہ بہتر ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم اس شہر میں نکالنےکے بجائے فلسطینی کے مقیم اپنے اعزاواقارب کو ارسال کردے۔ سوال:۔ کیا بیوی یا دوسرے وہ رشتہ دار جن کا نان و نفقہ اس پر واجب ہے ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ جواب:۔ فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ۔ کیونکہ بیوی دراصل شوہر کا ایک حصہ اور جزو ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا" (الروم:21) اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی سے بیویاں بنائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی دراصل شوہر کا ایک جزو ہے۔ اس لیے بیوی کو زکوٰۃ دینا گویا اپنے کو زکوٰۃ دینا ہے اور اپنے آپ کو زکوٰۃ دینا کسی طور جائز نہیں۔ اسی لیے بیوی کو زکوٰۃ دینا بھی کسی طور جائز نہیں ۔ اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اولاد بھی ماں باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ "أَوْلادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ " تمھای اولاد تمھاری اپنی کمائی ہے۔ اسی طرح اپنے والدین کو بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنے والدین کا جزو ہوتا ہے۔ البتہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ والدین اگر فقیرہیں تو ان کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ میرے نزدیک بھی ایسی صورت میں والدین کو زکوٰۃ کی رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
Flag Counter