Maktaba Wahhabi

158 - 360
جواب:۔ بے شبہ بعض علماء کے نزدیک فی سبیل اللہ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دئیے جائیں مثلاًمسجدیں یا ہسپتال بنوانا وغیرہ لیکن میرے نزدیک فی سبیل اللہ کو عام معنوں پر محمول کرناصحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح فی سبیل اللہ کے تحت زکوٰۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہو جائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہو گا اس طرح زکوٰۃ والی آیت میں زکوٰۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ مزید برآں اگرفی سبیل اللہ کو عام پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقراء و مساکین بھی ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔ پھر انہیں علیحدہ تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ ؟ اللہ کاکلام بلا غت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلا غت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو پس معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت فی سبیل اللہ کاعلیحدہ اور خاص مفہوم ہے سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد جہاد لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انھوں نے احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے۔ "لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللّٰه أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" (بخاری ومسلم ) اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ اس حدیث میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے: صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے: "لوكان شبابه وجلده في سبيل اللّٰه" (طبرانی) کاش اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہو تی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کاش اس کی جوانی جہاد کے موقعے پر کام آتی ۔ اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ فی سبیل اللہ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا
Flag Counter