Maktaba Wahhabi

173 - 360
کہ وہ کھانا اور پینا ترک کردے۔ اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: "لَيْسَ الصِّيَامُ مِنْ الشَّرَابِ وَالطَّعَامِ وَحْدَهُ ; وَلَكِنَّهُ مِنْ الْكَذِبِ , وَالْبَاطِلِ وَاللَّغْوِ " روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔ میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے کیوں کہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں۔ (2)کہ ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نا فرمانی کرتے ہیں اور میں انہیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ان غلاموں نے تمہاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہوگی اور تم نے انہیں جتنی سزادی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نا فرمانی کے مقابلے میں تمہاری سزا کم ہوگی تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نا فرمانی اور تمہاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمہاری سزا
Flag Counter