Maktaba Wahhabi

194 - 360
جس سے وہ سنتا ہے۔ الخ۔ اس تمہید کے بعد چند شرعی اصول پیش کرتا ہوں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک نفل عبادت قبول نہیں کرتا جب تک فرض ادا نہ کیا جائے۔ اس قاعدے کی بنا پر ہر وہ شخص جو سال بہ سال حج اور عمرے ادا کرتا ہے لیکن زکوٰۃ و صدقات کی ادائی میں بخل سے کام لیتا ہے اس کے حج اور عمرے بے کار ہیں۔ اسے نفلی حج کرنے کے بجائے پہلے زکوٰۃ صدقات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ تاجر جو قرضوں میں پھنسا ہوا ہو۔ اسے قرض اتارنے کی فکر کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اس نفل کو قبول نہیں کرتا جو کسی غلط کام کا سبب بن جائے کیوں کہ نفل کام کرنے سے زیادہ اہم ہے غلط کام سےمحفوظ رہنا۔ چنانچہ اگر نفل حج کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ایام حج میں اتنی بھیڑ ہو جاتی ہو کہ لوگوں کی جانیں خطرہ میں پڑجائیں تو ایسی صورت میں نفلی حج کرنے کے مقابلےمیں بھیڑ کم کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 3۔ منفعت حاصل کرنے کے مقابلے میں فساد اور خرابی دور کرنا زیادہ ضروری ہے۔ نفل حج کرنے میں اگرچہ ثواب ہے لیکن ساتھ ہی یہ خرابی ہے کہ بھیڑ کی زیادتی کی وجہ سے حاجیوں کو تکلیف پہنچتی ہے اس لیے ثواب حاصل کرنے کے مقابلے میں یہ خرابی دور کرنا زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 4۔ ثواب کمانے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نفل کاموں کی تعدادبے شمار ہے کوئی ضروی نہیں کہ آدمی نفل حج کر کے ہی ثواب کمائے۔ خاص کر ایسی صورت میں کہ اس نفل کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو۔ ثواب کمانے کے لیے وہ ان پیسوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتا ہے۔ محتاجوں کی مدد کر سکتا ہے۔ غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ بسااوقات یہ صدقہ کرنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے: "ليس المؤمن الكامل بالذي يشبع وجاره جائع إلى جنبه"(حاتم، طبرانی)
Flag Counter