Maktaba Wahhabi

215 - 360
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کی تاکید کی۔ دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہودیوں کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ ان دونوں روایتوں میں کیوں کر تطبیق ہو سکتی ہے؟ جواب:۔ جس پہلی روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے۔ حدیث یوں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ ان لوگوں نے جواب دیاکہ یہ ایک مبارک دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ وہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودو نصاریٰ کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے اور ان سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے تاہم ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھابلکہ روایتوں میں ہے کہ وہ ہجرت سے قبل بھی روزہ رکھتے تھے ، اہل عرب بھی دور جاہلیت میں اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قریش نے ایک بڑا گناہ کیا۔ اس بات سے ان کے دل بوجھل ہو گئے ان سے کہا گیا کہ عاشورا کا روزہ رکھو تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ آپ مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حق دار ہیں۔ یہودو نصاریٰ نے تو موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو فراموش کر دیا لیکن میں انہیں تعلیمات کو لے کر آیا ہوں جنہیں موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ اس لیے ہمارا رشتہ ان سے قریب و مضبوط تر ہے اور ہمارا حق بنتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا
Flag Counter