Maktaba Wahhabi

235 - 360
ان دونوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول وہ تو اندھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم تو اندھی نہیں ہو، تم توانہیں دیکھ سکتی ہو۔ لیکن علماء حدیث کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے اور استدلال کے قابل نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کامفہوم یہ ہے کہ عرب اس زمانے میں پاجامے کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ اٹھتے بیٹھتے وقت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ستر کا کوئی حصہ کھل جائے اور انہیں اس بات کا احساس نہ ہو۔ بہرحال علماء حدیث نے اسے ضعیف حدیث قراردیا ہے۔ اس حدیث کے مقابلے میں دوسری حدیث زیادہ صحیح اور استدلال کے قابل ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں عدت کےایام گزاریں اورفرمایا کہ وہ نابینا ہیں اس لیے تم ان کے سامنے اپنا پردہ اتارسکتی ہو۔ یہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے۔ پردے کارواج رہی پردے اور برقعے کی بات تو بعض اسلامی معاشروں میں حد درجہ احتیٰاط کی وجہ سے پردے میں غلو سے کام لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس غلو کااسلام نے انہیں حکم نہیں دیا ہے۔ چنانچہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورتیں مسجدوں میں چہرہ اور ہاتھ کھول کر نماز پڑھ سکتی ہیں بشرطے کہ ان کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوں۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز ہے کہ عورتیں درس وتدریس کی مجلسوں میں علم حاصل کرنے کی خاطر شریک ہوں۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ جہاد کے میدان تک سفر کرتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرتی تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیویوں نے جنگ یرموک میں مردوں کی مدد کی تھی۔ اسی طرح احرام کی حالت میں چہرہ کھولنا سب کے نزدیک جائز ہے بلکہ جمہور علماء کے نزدیک احرام کی حالت میں چہرہ کھولے رکھنا ضروری ہے اور چہرہ چھپانا حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ " (بخاری)
Flag Counter