Maktaba Wahhabi

244 - 360
،باطل باطل" جس عورت نے بغیر اپنے ولی کی اجازت کے خود سے اپنی شادی کرلی، اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے ۔ شریف لڑکی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنا رشتہ خود تلاش کرے اور خود سے اپنی شادی کرلے۔ آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر گھر سے بھگالےجاتے ہیں اور کسی اور جگہ جا کر شادی کرلیتے ہیں۔ اس میں لڑکی کے گھر والوں کی رضا مندی شامل نہیں ہوتی ہے۔ لڑکی کو ہوش اس وقت آتا ہے ، جب اسے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ زبردست دھوکاہواہے۔ لیکن اب وہ دھوکے بازوں کے دام میں اس طرح پھنس چکی ہوتی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ولی کی رضا مندی کو ضروری قراردے کرلڑکی کی عزت وشرافت کی حفاظت کا بندوبست کیاہے۔ 3۔ اسی طرح لڑکی کی ماں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔ حدیث ہے: "آمِرُوا النِّسَاءَ فِي بَنَاتِهِنَّ" (مسند احمد) عورتوں سے ان کی بیٹیوں کے سلسلے میں مشورہ کرو۔ اس حدیث کی رو سےلڑکیوں کی شادی سے متعلق ان کی ماؤں سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ مائیں باپوں کے مقابلے میں اپنی بیٹیوں کی طبیعت، ان کی پسند وناپسند اور ان کے میلان ورجحان کو زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔ جب یہ تینوں متعلقین کسی رشتے کے لیے باہم رضا مند ہوں تب ایسی شادی عمل میں آتی ہے جسے ہم واقعی خانہ آبادی سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں مودت ورحمت اورسکون کاذریعہ قراردیا ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو میں یہ کہوں گا کہ آپ کا بغیر اپنے ولی کی اجازت کے کسی لڑکے کے ساتھ شادی کاعہد وپیمان کرلینا صحیح نہیں ہے۔
Flag Counter