Maktaba Wahhabi

273 - 360
الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ"(البقرہ:180) تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اورثابت ہے ۔ بعض فقہاء کے نزدیک وصیت سنت اور مستحب ہے اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ وصیت کرنا واجب ہے کیونکہ لفظ کتب وجوب پر دلالت کرتا ہے نہ کہ استحباب پر۔ میرے نزدیک بھی یہ وصیت واجب ہے لیکن یہ وصیت مال کے تہائی حصے سے زائد کی نہیں ہونی چاہیے۔ بعض مسلم ممالک میں ایک قانون موجود ہے جسے واجبی وصیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یعنی دادا کے لیے واجب ہے کہ موت سے قبل وصیت کرجائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکا تب بھی وصیت نافذالعمل تصور کی جائے گی۔ 2۔ دوسرا حل یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کے وقت چچاؤں کو چاہیے کہ مال وراثت میں سے کچھ انہیں بھی دیں جوتنگ دست اور یتیم ہیں۔ اللہ کاارشاد ہے: "وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا" (النساء:8) اور جب تقسیم کے موقع پر کنبے کے لوگ اوریتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو ۔ چچاؤں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے بھتیجے ان کے قریبی رشتے دار بھی ہیں۔ یتیم بھی ہیں اورمسکین بھی ہیں۔ اگرانہیں خدا کے حکم کا پاس ہے اور ان یتیموں کا خیال ہے تو ان یتیموں کو اس مال وراثت میں سے کچھ عطا کرنا چاہیے۔ یہ ان کی مرضی اور سخاوت پر منحصر ہے کہ وہ کتنا عطا کرتے ہیں۔ 3۔ اس کا تیسرا حل یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے واجبی نفقے کا تصور پیش کیا ہے۔
Flag Counter