Maktaba Wahhabi

284 - 360
طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ب:اللہ کافرمان ہے: "لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ " (البقرہ:225) یعنی اللہ تمہاری پکڑ لغو یمین میں نہیں کرتا ہے ۔ ج:حقیقت یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں انسان صحیح فیصلہ کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا يقضي القاضي وهو غضبان" یعنی قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ دے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق بھی ایک قسم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بیوی کے سلسلےمیں اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ غصہ کی حالت میں طلاق دے۔ اگر دے دیتا ہے تو مناسب بات یہی ہوگی، اس طلاق کااعتبار نہ ہو۔ د:نشے کی حالت میں طلاق نہ واقع ہونے کے سلسلے میں جو بھی دلیلیں میں نے پچھلے فتوے میں پیش کی تھیں ، وہ ساری دلیلیں یہاں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ غصے کی حالت تو نشے کی حالت سے بھی بدتر ہوتی ہے کیوں کہ شرابی کبھی اپنے آپ کو قتل نہیں کرسکتا اور نہ اپنے بچے کو بلندی سے نیچے پھینک سکتا ہے۔ لیکن غصے کی حالت میں انسان ایسا کرسکتا ہے۔ آخر میں واضح کرتا چلوں کہ وہ کون سا غصہ ہے جس میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اورشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے مطابق یہ وہ غصہ ہے جس میں انسان اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے اوروہ بغیر کسی ارادے کے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ غصے کی حالت میں وہ کچھ ایسی حرکتیں کرتا ہے، جو نارمل حالت میں نہیں کرسکتا۔ اور اس کی علامت یہ بھی ہے کہ غصہ ختم ہوجانے کے بعد انسان کو
Flag Counter