Maktaba Wahhabi

286 - 360
"فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا " (النساء:19) اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہومگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: "الطَّلَاقُ عَنْ وَطَرٍ " یعنی طلاق انتہائی ناگزیر حالت میں دی جاسکتی ہے ۔ گزشتہ فتوے میں ذکر کرچکا ہوں کہ علماء مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پر شدید غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کوکالعدم قراردیتے ہیں حدیث ہے: "لا طلاق ولا عتاق في إغلاق" (مسند احمد، ابوداؤد، حاکم) اغلاق کی حالت میں نہ طلاق ہوتی ہے اورنہ غلام کی آزادی ۔ اب میں ان خاتون کو مخاطب کرکے سوال کرتا ہوں، جنہیں ان کے شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں، کیا آپ کے شوہر نے انتہائی غصے کی حالت میں طلاق دی؟اگر غصے کی حالت میں طلاق دی ہے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی یا کیا آپ کے شوہر نے اس وقت طلاق دی جب آپ حیض کی حالت میں تھیں یا ایسی پاکی میں طلاق دی جس میں آپ کے شوہر نے آپ سے مباشرت بھی کی ہے تو ایسی طلاق طلاق بدعت کہلاتی ہے اور شریعت میں ایسی طلاق جائز نہیں ہے۔ اس لیے یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق یوں دی ہے کہ اگر آپ نے فلاں کام کیا یا فلاں سے ملیں یافلاں کے گھر گئیں تو آپ کو طلاق ہوجائے گی اور پھر اس کے بعد آپ نے وہ کام کرلیا تو اس صورت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق سوچ سمجھ کر اور کامل ارادے سے دی گئی ہو اور شوہر غصے یاجنون یانشے کی حالت میں نہ ہو۔
Flag Counter