Maktaba Wahhabi

296 - 360
اس کے شوہر نے منع کیا تھا مثلاً اس نے فلاں شخص سے ملاقات کرلی تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی البتہ قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ یعنی دس مسکینوں کوکھاناکھلائے یا تین دن روزے رکھے۔ میرے نزدیک بھی یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ سوال:۔ مطلقہ عورت کے لیے کیا جائز ہے کہ اپنے طلاق دینے والے شوہر سے کسی ضرورت کے تحت ملاقات کرے؟ جواب:۔ جس کسی عورت کو طلاق ہوجاتی ہے اور اس کی عدت کی مدت بھی ختم ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اس کا شوہر اس کے لیے اجنبی(نامحرم) ہوجاتا ہے۔ جس طرح وہ کسی دوسرے نامحرموں سے تنہائی میں نہیں مل سکتی اسی طرح اپنے سابقہ شوہر سے تنہائی میں نہیں مل سکتی۔ اسی طرح اپنے سابقہ شوہر سے تنہائی میں نہیں مل سکتی ۔ کیونکہ حدیث میں ہے جب مرد عورت تنہائی میں ملتے ہیں تو شیطان ان کاتیسرا ہوتا ہے۔ اگر ضرورت کی بناپر اپنے سابق شوہر سے ملنا ضروری ہے تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس سے مل سکتی ہے بشرطیکہ تنہائی میں نہ ملے۔ اگر عدت کی مدت ختم نہیں ہوئی ہے اور پہلی طلاق ہویا دوسری طلاق ہوتو مطلقہ عورت اپنے شوہر سے تنہائی میں مل سکتی ہے۔ بلکہ بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر میں عدت کی مدت گزارے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا "(الطلاق:1) اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وه کھلی برائی کر بیٹھیں، یہ اللہ کی مقرر کرده حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپرظالم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔
Flag Counter