Maktaba Wahhabi

309 - 360
بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ" (النساء:58) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ ان دونوں آیات سے واضح ہے کہ رسولوں کی بعثت کامقصد عدل وانصاف قائم کرنا ہے اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسافیصلہ کیا جائے جو انصاف پر مبنی ہو اور جس کی امانت ہویا حق ہو وہ اسے لوٹا دیاجائے۔ یہ اللہ کا حکم ہے ۔ اگر مزدوروں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور ان کی حق تلفی ہورہی ہو تو یہ عدل وانصاف کے خلاف ہے اور اللہ کےحکم کی نافرمانی ہے۔ اس لیے حکمران وقت کافرض ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مزدوروں اور ان کے مالکوں کے درمیان عدل وانصاف قائم کرے۔ 3۔ اسلامی شریعت کاقاعدہ ہے کہ نقصان ہونے سے قبل نقصان کو روکنے کے لیے احتیٰاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور اگر نقصان واقع ہوجاتا ہے تو اسے دور کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔ اسی لیے حدیث شریف میں ہے: " لا ضرر ولا ضرار " نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ ۔ اس حدیث کی بنیاد پر اسلامی شریعت کےمتعدد احکام وقوانین کی عمارت قائم ہے۔ چنانچہ اسلامی حکومت کے قوانین میں ایسا قانون ضرور ہونا چاہیے۔ جس کے ذریعے سے رعایا کو پہنچنے والے نقصان کو روکا جاسکے یا نقصان کی تلافی کی جاسکے۔ مذکورہ بالا اُصول کی بنیاد پر فقہاءکرام نے چند فروعی قوانین وضع کیے ہیں مثلاً یہ کہ نقصان کی ہر حال میں تلافی کی جائے، کسی نقصان کی تلافی دوسرے نقصان سے نہیں ہوسکتی۔ عام لوگوں کے نقصان کو دفع کرنے کے لیے کسی خاص شخص کے نقصان کو برداشت کرنا چاہیے۔ بڑے نقصان کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے نقصان کوبرداشت کیاجاسکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
Flag Counter