Maktaba Wahhabi

313 - 360
وَصَدَقَ" (ترمذی) بلاشبہ تاجرحضرات قیامت کے دن فاجروں کی صورت میں اُٹھائے جائیں گے سوائے ان کے جنہوں نے اللہ کاڈر رکھا۔ نیکی کی اور سچ بات کہی۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تاجر تجارتی معاملات میں نیکی اور سچائی سے کام لے اور غلط کام پر خدا سے ڈرے ۔ اسی لیے دوسری حدیث ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین لوگوں کی طرف اللہ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ ان میں سےایک وہ ہے: "وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ" (مسلم اور اصحاب السنن) جھوٹی قسم کے ذریعے سے مال تجارت کو بڑھا چڑھا کربتانے والا ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بارے میں فرمایا: "وَلِكِنَّهُم يُحَدِّثُونَ فَيَكذِبُونَ ، وَيَحلِفُونَ فَيَأثَمُونَ"(مسند احمد اور حاکم) وہ کچھ بتاتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں توگناہ کرتے ہیں ۔ ایسے ہی تاجر حضرات ہیں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن فاجروں کی طرح اُٹھائے جائیں گے۔ وہ تجارت جسے اللہ تعالیٰ نے فضل الٰہی سے تعبیر کیاہے ان میں مندرجہ ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: 1۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ حلال اورمباح چیزوں کی تجارت کی جائے۔ اسلام کی نظر میں جوچیزیں حرام ہیں ان کی تجارت نہ کی جائےمثلاً شراب، خنزیر کا گوشت وغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ اگر کسی نے انگور کوروکے رکھاتاکہ کسی یہودی یا عیسائی کوشراب بنانے کی غرض سے فروخت کرےتو اس نے جان بوجھ کر جہنم کی آگ خریدی۔(1) 2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ تجارت میں دھوکہ نہ دے مثلاً یہ کہ خراب مال کو اچھا مال بتا
Flag Counter