کے لیے ایک عادی شخص اپنی بیوی بال بچوں پر مال خرچ کرنے کے بجائے سگریٹ خرید کر پھونک دیتا ہے اور اس کے بچے بھوکے رہ جاتے ہیں یا ان کی لازمی ضروریات پوری نہیں ہو پاتی ہیں۔
ان سب نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے سگریٹ نوشی کو جائز قرار دینا کسی طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ ان نقصانات کی بنا پر اسے حرام نہیں تو کم ازکم مکروہ ضرور قراردینا چاہیے۔ تاہم مذکورہ دلائل کی روشنی میں میری رائے یہ ہے کہ سگریٹ نوشی حرام ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک دو نہیں بلکہ تین تین نقصانات ہیں یعنی جسمانی مالی اور نفسیاتی اور ان کے مقابلہ میں فائدہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پینے سے راحت ملتی ہے۔ ذہنی سکون ملتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ راحت اسے ملتی ہے جو اس کا عادی ہو گیا ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص منشیات کا عادی ہو گیا ہو۔ منشیات کے استعمال سے اسے راحت نصیب ہوگی اور نہ ملنے کی صورت میں بے حد تکلیف ہو گی۔
سگریٹ نوشی پر اس فتوی کے ساتھ ساتھ میں چند باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
1۔ بعض حضرات سگریٹ کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ سگریٹ ترک کرنا ان کے بس سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص کو بشرط کوشش معذور سمجھا جائےگا۔ یہ اس کی نیت پر منحصر ہے کہ وہ سگریٹ چھوڑنے کے لیےواقعی کس قدر کوشش کررہا ہے اور سگریٹ چھوڑنے کے معاملہ میں کس قدرمخلص ہے۔
2۔ سگریٹ کے حرام ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شراب اور زنا جیسی حرام چیزوں کے برابر حرام ہے۔ اسلامی شریعت میں حرام چیزوں کے بھی کئی درجے ہیں۔
3۔ وہ حرام چیز جس کی حرمت میں اختلاف ہو اس حرام چیز کے برابر نہیں ہو سکتی جس کی حرمت پر اتفاق ہو۔ اس لیے سگریٹ پینے والے کو فاسق کہنا یا اس کی گواہی کو
|