Maktaba Wahhabi

357 - 360
میں واضح دلیل نہیں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لہو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے۔ لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا ہے۔ اسی طرح اس آیت میں لغو سے مراد گانا بجانا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس آیت میں لغو سے مراد گالم گلوچ ، طعن تشنیع اور احمقانہ باتیں ہیں آپ پوری آیت کو سیاق و سباق کے حوالہ سے پڑھیں تو یہی مفہوم آپ بھی اخذ کریں گے۔ اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت ہے: "وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا" (الفرقان:63) اور جب جاہل ان کے منہ آتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ اگر مذکورہ آیت میں لغو سے مراد گانا لیا جائے تو آیت یوں نہ ہوتی کہ اسے سننے کے بعد وہ اس سے دامن بچاتے ہیں بلکہ آیت یوں ہوتی کہ اس کے سننے سے دامن بچاتے ہیں۔ حالانکہ آیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہ اللہ کے نیک بندے اسے سننے سے پرہیز کرتے ہوں یا دامن بچاتے ہوں۔ اگر لغو سے مراد وہ باتیں لی جائیں جن میں کوئی فائدہ نہ ہو اور یہ کہا جائے کہ گانا بھی بے فائدہ چیز ہے اس لیے اس آیت کی روسے اس سے پرہیز کرنا چاہیے تو اس اعتراض کے جواب میں ، میں ابن جریج کا کلام نقل کروں گا ۔ کسی نے ان سے دریافت کیا کہ گانا سننا آپ کی نیکیوں کے باب میں شمار کیا جائے گا یا برائیوں کے کھاتے میں لکھا جائے گا؟ ابن جریج نے جواب دیا کہ اس کا شمار نہ نیکیوں میں ہو گا اور نہ برائیوں میں بلکہ یہ تو ان لغو چیزوں میں سے ہے جن پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ" (المائدہ:89) تم لوگ جو مہمل اور لغو قسم کی قسمیں کھا لیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ بندے کا اس بات پر مواخذہ نہیں کرے گا کہ اس نے یوں ہی اللہ کا نام لے کر قسم کھائی تو شعر و نغمہ پر کیوں کر گرفت کرے گا۔ اس پر مستزادیہ کہ ہر گانا یا نغمہ لغو باتوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔ بعض نغمے اچھی اور مفید
Flag Counter