Maktaba Wahhabi

57 - 360
تھا۔ تو فرشتے ڈانٹ کر طنزاً مردے سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی تو ہی اس کا سہارا تھا؟کیا واقعی تو ہی اس کا مددگار تھا؟ حالانکہ حقیقی مددگار تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی مفہوم کا ایک واقعہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں تذکرہ کیا ہے، جس کے راوی نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نزع کی کیفیت طاری ہوئی تو ان کی بہن چیخ پکار کرنے لگیں۔ اور کہتی جاتی تھیں کہ ہائے میری حفاظت کرنے والا، ہائے یہ اور ہائے وہ، عبداللہ بن رواحہ جب ذرا ہوش میں آئے تو فرمایا کہ تو نے جن جن چیزوں کے ذریعے مجھے دہائی دی وہی ساری چیزیں مجھ سے کسی نے پوچھیں(یعنی فرشتوں نے) کہ کیا تم واقعی ایسے ہی ہو؟ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ اس حدیث میں آہ وبکا سے مراد ہر آہ وبکا نہیں ہے بلکہ صرف بین کرنا اور نوحہ خوانی کرنا ہے۔ اسی طرح میت سے مراد ہر میت نہیں ہے بلکہ وہ میت ہے جس کے گھر میں نوحہ خوانی ایک رواج کی حیثیت رکھتی تھی۔ میت اپنی زندگی میں سب کچھ دیکھتی تھی لیکن اس نے اپنے گھروالوں کو اس عمل سے کبھی منع نہیں کیا۔ چنانچہ اس غفلت کی پاداش میں اسے عذاب دیا جائے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے کی حمایت میں چند آیات اور احادیث پیش کی ہیں۔ مثلاً: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا"(التحریم:6) اے لوگو جو ایمان لائے ہو!بچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ۔ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ" (بخاری ومسلم عن ابن عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ ) تم میں ہر ایک شخص ذمےدار ہے اور اپنی رعیت کے سلسلے میں جوابدہ ہے ۔ اس آیت اور حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ میت کو اس جرم کی پاداش میں عذاب ہوکہ اس نے اپنے گھر والوں کی تربیت میں کوتاہی کی اورانہیں نوحہ خوانی کے ایسے غیر اسلامی
Flag Counter