Maktaba Wahhabi

70 - 360
نہ کرو ۔ ذرا غور کریں کہ جب نافرمانی بیوی پر زیادتی کرنے سے منع کیاگیا ہے تو فرماں بردار اور نیکوکاری بیوی پر طلاق کا ظلم کیسے رواہوسکتا ہے؟ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ طلاق اصلاً ممنوع ہے۔ محض بہ وقت ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہے۔ جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک صحیح حدیث مروی ہے کہ ابلیس اپنا عرش سمندر میں نصب کر تا ہے، پھر اپنے کارندے پھیلاتا ہے۔ سب سے مقرب کارندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پھیلائے۔ پھر وہ کارندہ ابلیس کے روبرو آکرکہتا ہے کہ میں اُسے بہکاتارہا حتی کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کرادی۔ ابلیس اسے اپنے قریب بلاتا ہے اور فرط محبت سے گلے لگالیتا ہے۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی ایک شیطانی اور ناپسندیدہ فعل ہے۔ (7) اللہ تعالیٰ نے جادو کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: "فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ" (البقرۃ:102) پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں ایک دوسری حدیث میں حضور نے فرمایا: "إن المختلعات هن المنافقات"(8) خلع کرانے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں ایک اور حدیث اسی مفہوم کی ہے: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة "(9) جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ان سب دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلاق فی نفسہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔
Flag Counter