Maktaba Wahhabi

96 - 360
3۔ یہ بات بھی برحق ہے کہ تقدیر کی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری تقدیروں میں کیا لکھا ہوا ہے۔ لیکن ہمیں حکم ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھیں بلکہ کام کریں۔ اسباب وعوامل کو اختیار کریں۔ تمام احتیاطی تدابیر اپنائیں اور یہ سب تو اس ہستی نے بھی کیا تھا جس کا خدا پر ایمان تمام انسانوں کے ایمان سے کہیں بڑھ کرتھا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ چنانچہ انہوں نے لشکر تیار کیے۔ کفار سے جنگیں کیں، زرہ پہنیں، مدینہ کے اطراف میں احتیاطاً خندق کھودی۔ حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کاحکم دیا۔ ہجرت کے موقع پر غار میں روپوش ہوئے، اپنے گھر والوں کے لیے ایک سال کے لیے غلہ جمع کیا وغیرہ وغیرہ۔ 4۔ تقدیر کا بہانہ بناکر انسان کو کاہلی اور سستی کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیے۔ تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے انسان کچھ کرے، اسباب وعوامل اختیار کرے، کچھ جدوجہد کرے اور ان سب کے بعد نتیجہ خدا کی مرضی پر چھوڑدے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کشتی لڑی۔ ہارنے والا بغیر کسی محنت اور کوشش کے ہارگیا اور ہارنے کے بعدکہا کہ اللہ میرا مددگار ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔ فرمایا:پہلے محنت کرو، کوشش کرو، اس کے بعد ہار جاؤ تب کہو کہ اللہ میرامددگار ہے۔ (ابوداؤد) 5۔ تقدیر پر ایمان کا فائدہ یہ ہے کہ انسان تمام کوششوں کے باوجود اگر ناکامی کا سامنا کرتاہے تو اس پر مایوسی طاری نہیں ہوتی۔ مصیبت کی گھڑیوں میں صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور محنت ومشقت کے صلے میں جو کچھ بھی اسے نصیب ہوتا ہے، خدا کی مرضی سمجھ کر اسی پر خوش وخرم اور صابر وشاکر رہتا ہے۔ تقدیر کا عقیدہ اگر اُمت مسلمہ کے ذہنوں میں جاگزیں ہوجائے تو ایک ایسی امت تیار ہوسکتی ہے جو اندرونی طور پر طاقتور ہوگی اور اس کے اندر مجاہدانہ صفات موجود ہوں گی۔ وہ اُمت اس قابل ہوگی کہ تاریخ کی لگام اپنے ہاتھوں میں لےلے۔
Flag Counter