Maktaba Wahhabi

168 - 579
کہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی مراد علم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، سب کو جانتا ہے، وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے اور کوئی جگہ اس کے علم سے خالی نہیں ہے۔‘‘[1] انتھیٰ۔ مذکورہ بالا ساری عبارت کو عقائد اہلِ حدیث میں ذکر کیا ہے، پھر کہا ہے کہ علماے حجاز و شام وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ لہٰذا جو شخص اس مذہب کی مخالفت کرے یا اس میں طعن کرے یا اس کے قائل پر عیب لگائے، وہ مخالف اور مبتدع، جماعت سے خارج، سنت کے راستے اور طریقِ حق سے دور چلا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ استوا اور فوق کی آیات و احادیث محکمات ہیں اور آیاتِ معیت و قرب وغیرہ متشابہ ہیں، لہٰذا متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانا چاہیے، محکم کو متشابہ کے ساتھ رد نہیں کرنا چاہیے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے شاگرد حرب نے کہا ہے کہ استوا و فوق کے ثبوت والا مذہب ہی امام احمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن زبیر حمیدی اور سعید بن منصور رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ (میں کہتا ہوں) امام مالک اور ابو الحسن اشعری رحمہم اللہ وغیرہ اہلِ حدیث کا یہی مذہب ہے۔[2] صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین وغیرہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور تمھارے اعمال میں سے کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں ہے۔[3] امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ہم اور تابعین رحمہم اللہ یہی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے۔[4] مقاتل بن حیان رحمہ اللہ نے کہا: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ساتھ ہم سے قریب ہے اور اپنی ذات سے عرش کے اوپر ہے۔[5] امام طحاوی رحمہ اللہ نے کہا ہے: وہ سب کے اوپر ہے اور ہر ایک چیز کو محیط ہے۔[6] انتھیٰ۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں علم کی قید کے بغیر احاطے کا ذکر آتا ہے تو وہ مقید بالعلم پر محمول ہو گا، جس طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter