یعنی:اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وه لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے ۔ نیز فرمایا: [فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ۔فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِيْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ۔ ][1] یعنی:پس جب کہ صور پھونک دیا جائے گا اس دن نہ تو آپس کے رشتے دار ہی رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ جن کی ترازو کا پلہ بھاری ہوگیا وه تو نجات والے ہوگئے اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا یہ ہیں وه جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا جو ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے۔ نیز فرمایا: [فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ۔ فَہُوَفِيْ عِيْشَۃٍ رَّاضِيَۃٍ۔ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ ۔ فَاُمُّہٗ ہَاوِيَۃٌ۔ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَاہِيَہْ ۔ نَارٌ حَامِيَۃٌ][2] یعنی:پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وه تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے تجھے کیا معلوم کہ وه کیا ہے وه تند وتیز آگ ہے۔ امام لالکائی رحمہ اللہ اپنی کتاب السنۃ میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی ایک موقوف روایت لائےہیں کہ صاحب المیزان ،جبریل علیہ السلام ہونگے۔[3] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |