Maktaba Wahhabi

100 - 534
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے:’’ خرید و فروخت صرف باہمی رضامندی سے ہی ہونی چاہئے‘‘۔[1] اس طرح عقلِ سلیم بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اگر معاملات میں باہمی حقیقی رضامندی کی شرط عائد نہ کی جائے، تو لوگ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے کھانا شروع کردیں گے، ایک طاقتور شخص اگر اپنے سے کمزور کے پاس اپنی من پسند چیزدیکھے گا تو اس سے زور زبردستی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جس سے معاشرہ میں سوائے نفرت، دشمنی، فساد اوربربادی کے کچھ باقی نہ بچے گا، لہٰذا اسی بناپر شریعتِ اسلامیہ میں کسی کی چیز بغیراجازت حاصل کرنا یا کسی کو اس کی چیز بیچنے پر مجبور کرنا یا زبردستی اپنی پسند کی قیمت پراُسے خریدناحرام ہے۔ رضامندی حقیقی ہونی چاہئے اس حوالہ سے عصرِ حاضر کے معروف عالم فضیلۃ الشیخ حافظ ذوالفقار علی فرماتے ہیں : ’’واضح رہے کہ یہ رضا مندی حقیقی ہونی چاہئے نہ کہ مصنوعی۔لہٰذاکسی دباؤکے تحت یا غلط تاثرکی بنیادپریادوسرے فریق کوچیز کی حقیقت سے بے خبریا اصل قیمت سے دھوکے میں رکھ کر حاصل کی گئی رضامندی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے شریعت نے اس قسم کی دھوکہ دہی کی صورت میں متاثرہ فریق کو معاملہ منسوخ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اگر انتہائی بے بسی اور مجبوری کی بنا پر اپنی چیز بیچ رہا ہوتو ایسے شخص سے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ بظاہر وہ اس پر راضی بھی ہوناجائز ہے، درست نہیں ۔ معمولی کمی بیشی کی تو گنجائش ہے لیکن بہت زیادہ فرق درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلبی خوشی کی تاکید فرمائی ہے اور یہ بات طے ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیر معمولی کم ریٹ پربیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں مجبور شخص سے سستے داموں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے، یہ ناپسندیدہ رویہ ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے‘‘۔[2]
Flag Counter