Maktaba Wahhabi

106 - 534
کی سمجھ نہ رکھتا ہو یا پھر، اپنےعمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنے مال میں بہتر مصرف کی پہچان نہیں رکھتا۔ نوٹ: بے وقوفی سے مراد پاگل پن نہیں ہے ، اگرچہ دونوں ہی تصرف کے قابل نہیں لیکن دونوں میں معنی و احکام کے لحاظ سے واضح فروق موجود ہیں۔ پانچواں وصف:اُس پر مالی تصرّفات میں کسی بھی قسم کی کوئی پابندی و روک نہ لگائی گئی ہو۔ اب خواہ یہ پابندی کسی دوسرے کی مصلحت کی غرض سے ہو ۔ جیسے: قرضہ دینے والوں کی مصلحت کی خاطر،مقروض مفلس(کنگال) پر اسکے اپنے مال میں تصرف کرنے پر پابندی لگانا، یا جس کے پاس کچھ گروی رکھواکر قرض لیا گیا ہو کی مصلحت کی خاطر گروی رکھنے والے پر پابندی لگاناکہ وہ اپنی گروی رکھی ہوئی چیز میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا، یا پھر ورثاء کی مصلحت کی خاطرمرض الموت میں مبتلا مریض پر اس کے اپنے مال میں ثلث (تیسرے حصہ )کی وصیت کرنے پر پابندی لگانا۔ یا یہ پابندی اُس کی اپنی مصلحت کی بناء پر عائد کی جائے۔ جیسے : مجنون، بچےاور بے وقوف ونا سمجھ پر اُن کے اموال میں تصرّف کرنے پر پابندی لگانا کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتے ۔ مذکورہ پانچ اوصاف کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے عاقد کی اہلیت و نا اہلی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اہلیت رکھنے والے عاقد میں ان پانچوں اوصاف کا ہونا ضروری ہے ، اگران میں سے ایک وصف بھی مفقود ہوا تو عاقد شرعی اعتبار سے نا اہل قرار پائے گا۔اور اسے خرید و فروخت کی اجازت نہیں ہوگی۔ طرفین کی اہلیت سے متعلقہ چند ضروری وضاحتیں: نابالغ بچہ کی طرف سے سودا (خرید و فروخت)کرنے کا حکم  اگرنابالغ بچہ ممیّز ہو یعنی صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اُس کا اپنے مال میں تصرّف کرنااپنے سرپرست کی اجازت سے درست ہے۔(سرپرست کی اجازت شرط ہے)۔اور یہی رائے راجح اوردلائل کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے، کیونکہ: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچہ کی جائداد ،کاروبار و ملکیت اُس کی بلوغت سے پہلےاُس کے
Flag Counter