Maktaba Wahhabi

188 - 534
(1) سرمایہ کی ضمانت مشارکہ میں دو یا دو سے زائد افراد نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت داری کرتے ہیں ، اگر نفع ہو تو طے شدہ بنیاد پر تقسیم ہوجاتا ہے ، اور اگر نقصان ہو تو شراکت داری کے تناسب سے ہر شریک نقصان اٹھاتا ہے اور اس میں کسی کو استثناء نہیں ہوتا، اور مشارکہ میں کسی بھی شریک کے سرمایہ کی ضمانت نہیں دی جاتی ،یہی بات مشارکہ کو سودی معاملہ سے الگ کرتی ہے۔ لیکن مروجہ مشارکہ میں بینک کا صارف سے مشارکہ کی ابتداء ہی میں یہ وعدہ لے لینا کہ بینک کا جو حصہ بنتا ہے وہ صارف خریدے گا اور جب تک وہ بینک کا حصہ خرید نہیں لیتا وہ بینک کو کرایہ بھی ادا کرے گا، اور پھر اس وعدہ کو قانوناً لازمی ایفاء کرانادراصل مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت لینا ہے ، اور یہ صورت بالکل یوں ہی بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو مکان خریدنے کے لئے دس لاکھ روپے قرض دے پھر اس سے گیارہ لاکھ روپے وصول کرے، یعنی مشارکہ میں سرمایہ کی ضمانت لینے یا ضمانت دینے سے مشارکہ سودی معاملہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ (2) ایک معاہدے میں دو معاہدے مشارکہ متناقصہ میں بینک مشارکہ کے معاہدے کے ساتھ ہی صارف سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ موجودہ مشارکہ میں بینک کا جو حصہ بنتا ہے اسے ضرور خریدے گا، اسے بینک وعدہ کا نام دیتے ہیں جبکہ اس وعدہ کا قانوناً التزام کرایا جاتا ہے ، اور یہ بات گزشتہ صفحات میں بارہا مقام پرتفصیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہے کہ ایسا وعدہ جس میں قانوناً التزام کا عنصر پایا جائے وہ دراصل معاہدہ ہے ، وعدہ نہیں۔اور اس تفصیل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مروجہ مشارکہ متناقصہ میں بھی یہ قباحت موجود ہے کہ ایک معاہدے میں دو معاہدے جمع کردئیے جاتے ہیں۔ (3) بيع ما لا يملك (ایسی چیز فروخت کرنا جس کا وہ مالک نہ ہو) کی قباحت بینک صارف سے مشارکہ کے آغاز ہی میں یہ وعدہ لے لیتا ہے کہ صارف بینک کا حصہ خریدے گا، اورجس وقت یہ وعدہ لیا جاتا ہےاس وقت مطلوبہ سامان کی ملکیت حاصل کرنا تو الگ بات ، وہ سامان ابھی
Flag Counter